Rahman Abbas زندیق | ناول | رحمٰن عباس رحمن عباس اپنے انداز ، اسلوب ، موضوعات اور معنوی آہنگ کے اعتبار سے اکیسویں صدی کا بہت اہم ناول نگار ہے۔ اسے صنف، دھرم اور نفسیاتی تعصبات سے اوپر اٹھنے کی کوشش کا ہنر آتا ہے ۔رحمن عباس کے روز وشب اور انداز زیست بجائے خود ایک ناول کا عنوان اور مواد خیال کیا جا سکتا ہے ، لیکن جس رغبت اور جس محویت سے وہ لکھنے میں لطف لیتا اور دو زندگیاں جیتا ہے ، یہ اسی کا کام ہے ۔ ارے دو زندگیاں؟ ۔۔۔کیا مطلب؟ جی ہاں دو زندگیاں ایک ناول سے باہر اپنی عام زندگی اور ایک ناول نگار کی ناول کے متن و معنی کے اندر والی زندگی۔ روحزن کو ملنے والی توجہ اور ایوارڈ اپنی جگہ لیکن رحمن عباس اپنی مقبول زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ زندیق کے ذہنی سفر پر روانہ ہو کر بامراد لوٹ بھی آیا ہے ۔ ایک بڑے ناول نگار کے لیے علم ، تجربات ، مشاہدات اور حیات و کائنات کو متحرک خطوط پر سمجھنے کی مسلسل کوشش میں مصروف ہونا ضروری ہے ، لیکن اسے علم اور مشاہدے کے سب سے بڑے ذریعے یعنی جہاں گردی کا تجربہ بھی امر لازم خیال کرنا چاہئیے۔اور رحمن عباس نے یہ تجربہ کیا۔سچ ہے اندازہ و قیاس تجربے اور ذاتی مشاہدے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس سچ اور اس کے نتائج کو ناول کا عنوان اور مآل بنانے کے لیے کمال درجے کی خلاقیت درکار ہے ۔اس قوت تخلیق کے بغیر ثواب تو درکنار، گناہ تازہ تر کا امکان بھی معدوم ہو جاتا ہے ۔علامہ اقبال اپنے شہکار جاوید نامہ میں ندائے جمال سے جب یہ کہلواتے ہیں کہ ہر کہ او را قوت تخلیق نیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست! تو قوت تخلیق کی اہمیت کی سطح اور منصب کا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہاتھ میں نو کتابیں تھامے ،جن میں پانچ ناول بھی شامل ہیں، دوسرے ہاتھ میں مستقبل کے خوابوں کی تعبیر رقم کرنے والا سنہری قلم اٹکائے،یہ نیم متبسم مصنف ،لیکن سیر چشم عاشق رحمن عباس ہے ۔ جب یہ کہیں اور دیکھ رہا ہو تو سمجھ جائیے کہ اس کی توجہ آپ پر ٹکی ہے . اور جب یہ سامنے بیٹھ کر آپ کی آنکھوں کے وسطی جزیرے کو تک رہا ہو تو مان جائیے کہ آپ کی تیسری آنکھ سے مکالمے کا آغاز کر چکا ہے۔ زندیق سرحدوں کو پائمال کرتا معنی و مفہوم کے ان گنت بند کواڑ کھولنے میں مگن ہے۔جہاں پڑھنے کی بجائے سننے کی روایت قوی رہی ہو ،وہاں نثر خوانی کی طاقت اور صلاحیت لوگوں کو حیران کئے جا رہی ہے ۔یہ کتنا گہرا ناول ہے ،اس کا اندازہ تو سارے حفاظتی
Genres:
650 Pages